سفرنامہ سنگاپور (ساتواں حصہ)

جیسے ہی خرّم کمرے میں داخل ہوا اس کے بیڈ کے اوپر اور ایک سامنے بیڈ پر دو دوشیزائیں نامناسب لباس میں براجمان تھیں۔ اس نے فوراً دروازہ بند کیا اور نیچے ریسپشن پہ جا پہنچا۔
"You said it’s only boys room why girls are present there?”

"See as we said… if rooms full on weekend.. we give to girls ,ok?”

دوبارہ روم میں جا کر اس نے تکیہ اٹھایا اور باہر لاؤنج میں موجود صوفے پر لیٹنے والے انداز میں بیٹھ گیا۔ پوری رات ایسے ہی گزر گئی ۔۔۔صبح آنکھ کھلی تو 8.30 ہورہے تھے اور 9 بجے اسے فیکٹری پہنچنا تھا۔۔۔ جلدی سے کمرے میں کپڑے لینے گیا تو لڑکیاں وہاں سے جا چکی تھی …شاید وہ صرف رات گزارنے کے لئے آئی تھی… اس نے شکر ادا کیا کہ مزید راتیں صوفے پر بیٹھ کے نہیں گزارنے پڑے گی۔

خیر اب سے فیکٹری پہنچنا تھا ٹرانسپورٹ کے لیے اس نے ایپ ڈاؤن لوڈ کرلی تھی جس کے ذریعے بس کی آمد اور روانگی کے وقت کا باآسانی پتہ چل جاتا تھا ۔۔۔کچھ دیر بعد وہ ‘یوکوگاوا’ فیکٹری کے ریسپشن پر کھڑا اپنا تعارف اور آنے کا مقصد بتا رہا تھا۔ یہ بیڈوک روڈ پر موجود ایک شان دار عمارت تھی جو لٹل انڈیا سے سے تقریبا آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھی…
کچھ دیر بعد صاف ستھرے کپڑے پہنے چھوٹے قد کا ایک درمیانی عمر کا آدمی اس کے پاس چلتا ہوا آیا۔۔
"Khurram Shaikh??”

"Yes I am khurram”

"ok Mr khurram.. I am project manager Robert.. nice to meet you! come with me”

"ہیں یہ یہاں پروجیکٹ مینیجر ہے اور اتنی ریسپیکٹ دے رہا ہے اور ہمارے ہاں کے مینیجرز کے دماغ تو آسمانوں پر پہنچے ہوتے ہیں ۔۔ سلام کا جواب دینا پسند نہیں کرتے” روبرٹ کے ساتھ ورکنگ ایریا کی طرف جاتے ہوئے اس نے سوچا۔ ۔
اندر پہنچ کر مزید اسٹاف ممبرز سے رابرٹ نے اس کا تعارف کروایا ۔۔زیادہ تر چائنیز تھے۔۔ پہلے کام کے حوالے سے میٹنگ ہوئی اور پھر سب اپنے ٹاسک میں لگ گئے۔ ایک بات جو چائنیز کے ساتھ کام کرکے اس نے محسوس کی کہ یہ بہت محنتی قوم ہے اور جو کام انھیں سونپا جائے تو خوش اصلوبی سے انجام دیتے ہیں۔۔۔ بارا بارا گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی چاک و چوبند رہتے ہیں اور وزن بھی کم ہوتا ہے ہیں۔۔ اس کی وجہ ان کی مناسب خوراک ، چکنائی اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز تھا ۔۔۔اس کے علاوہ ہر وقت گرین ٹی ساتھ رکھتے تھے۔۔

دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو رابرٹ نے سب اسٹاف میں ایک کوپن تقسیم کیا۔ مقصد پوچھنے پر اسے پتا چلا کہ اس کوپن کی بدولت میس سے پانچ ڈالر تک کا کھانا فری کھاسکتے تھے۔ وہاں دو طرح کی میس تھی ایک وہ جس میں یورپین اور چائینیز فوڈ سرو کی جاتی تھی اور دوسری ایشین میس ۔۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ٹرے اٹھا کر اپنی پسندیدہ فوڈ کاونٹر کی لائن میں لگنا ہے ۔۔ کھانا لینے کے بعد بل ادا کرکے دوسری لائن سے نکلنا ہے اور سامنے ٹیبل پہ بیٹھ کر کھانا ہے۔۔ اور ہاں کھانے کے بعد استعمال شدہ ٹرے ڈش واشنگ ایریا میں دے کر آنی ہے۔۔ اسے وہ پاکستانی ریسٹورنٹ یاد آنے لگے جس میں ویٹر کو آواز دے کر بلایا جاتا ہے اور کھانا کھانے کے بعد ڈکار لیتے ہوئے اور دانتوں میں خلال کرتے ہوئے ٹیبل پہ ہی سب چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔۔۔

کھانا کھاتے ہوئے اس کی ملاقات چن وی سے ہوئی جو اس کی ٹیم کا حصہ تھا اور چائنا سے تعلق رکھتا تھا۔۔ اس کی عمر مشکل سے 22 23 سال لگتی تھی ۔۔ اور اس کی انگلش بھی دوسرے گروپ ممبرز کے مقابلے میں اچھی تھی۔

"How did you select in yokogawa?”

"Yokogawa is famous company in china.. as i graduated from university .. they took our interview and selected me .. and this is my first project outside china”

"Great .. you’re so lucky to get job in such multinational company at very early stage of your career”

"Oh i am not lucky .. you know it’s very hard to survive in china with single job”

"You know in Pakistan our graduates dream of getting such job”

اتنی کم عمر میں ایسی کمپنی میں جاب ملنے کے بعد بھی چن وی خود کو خوش قسمت نہیں سمجھ رہا تھا ۔۔ خرم کو بات ہضم نہیں ہوئی۔ لیکن پھر جو اس نے وجوہات بیان کی انھیں سن کر وہ حیرت میں پڑ گیا۔

جاری ہے
✍ فیضان متین

سفرنامہ سنگاپور (چھٹا حصہ)

)

دونوں کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خرم نے بیچ میں لقمہ دیا، ’’ویسے آنٹی۔۔ انکل صحیح ہی تو کہ رہے ہیں، کھانا اتنا ٹیسٹی ہے نہیں جتنے ریٹ ہائی ہیں“۔ آنٹی نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے جواب دیا ، ”لو مل گئے انھیں ان کے پاکستانی حمایتی“۔۔۔۔

”حمایتی کی کیا بات ہے سچ کو ہر کوئی سپورٹ کرتا ہے ویسے برخوردار لہجہ بتارہا ہے کہ کراچی سے ہو، کیا میں ٹھیک ہوں ِ “ انکل خرم سے مخاطب ہوکر بولے۔

”جی انکل کراچی کے قریب حیدرآباد سے ہوں اور آپ یقینا کراچی سے ہیں، تو کس سلسلے میں آئے ہوئے ہیں؟ “۔۔۔

”ہاں بیٹا میں کراچی سے ہوں اور ہر چھ ماہ بعد سنگاپور آتا ہوں۔۔ یہاں سے پرانے جنریٹر بڑی تعداد میں خرید کے کراچی بھجوا دیتا ہوں ، وہاں ایک ورکشاپ بنائی ہے جو اس جنریٹر کے چھوٹے موٹے فالٹ کو ریپئر کرکے اسے نیا جیسا کردیا جاتا ہے، تمھیں تو پتا ہے یہاں کا ریجیکٹڈ مال بھی ہمارے نئے سے بہتر ہوتا ہے۔۔ مطلب طریقے سے استعمال شدہ۔۔۔سمجھے؟“۔

”جی انکل سمجھ گیا، اللہ آپ کے کاروبار میں مزید برکت دے۔۔بہت خوشی ہوئی مل کے“ ۔۔ ریسٹورنٹ کا بل ادا کرکے خرم سامنے موجود انگولیا مسجد کی طرف بڑھا۔

وضو کرکے نماز ادا کی اور کچھ دیر مسجد کے فرش پر ہی لیٹ گیا۔۔ویسے تو سنگاپور ہر لحاظ سے محفوظ ہے لیکن جتنا سکون اور تحفظ وہ یہاں آکر محسوس کررہا تھا وہ کہیں نہیں ملا۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ساری تھکن اتر گئی ہو۔

مسجد سے باہر نکلنے پہ اس نے غور کیا کہ اسی روڈ پہ کچھ دور ایک بہت شاندار مندر۔۔ اور سے کچھ آگے چرچ بنی ہوئی ہے۔۔۔ ہر عبادت گاہ میں تقریبا ایک جیسا رش تھا۔۔ لیکن کسی کے مذہب کے ماننے والے کو دوسرے سے کوئی غرض نہیں تھی۔۔۔ نہ ایک دوسرے کے لئے کسی نفرت کا اظہار تھا۔۔ عبادت گاہوں سے نکلنے بعد سب آپس میں مل جل رہے تھے۔۔۔ ”کیا ایسی قوت برداشت پاکستان میں ممکن ہے۔۔۔ شائد نہیں۔۔ کیونکہ ہم ڈنڈے کے زور پر سدھرنے والی قوم ہیں۔۔۔ رولز اینڈ ریگولیشن ہمارے ملک میں بھی بنے ہوئے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں کیونکہ عبرت کے طور پر سزا نہیں ملتی۔۔“

سامنے ’مصطفی سینٹر‘ کی شاندار بلڈنگ نظر آرہی تھی۔۔۔ وہ ایک شاپنگ مال تھا جس پہ ضرورت کی تقریبا ہر چیزمناسب قیمت پر دستیاب تھی۔۔۔ گیٹ کے پاس آویزاں بورڈ پر مصطفی سینٹر کی ہسٹری لکھی ہوئی تھی۔۔
"مشتاق احمد نامی ساوتھ انڈین نے اپنے والد کے ساتھ مل کے اس سینٹر کی بنیا د رکھی۔ 1965 میں وہ اتر پردیش انڈیا سے سنگاپور اپنے والد کے پاس آیا تو ایک چھوٹا لڑکا تھا جو کاروباری دنیا کے بارے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اپنے والد کے فوڈ اسٹال کے ساتھ ہی اس نے رومال کا ایک چھوٹا سا اسٹال لگایا جو اس نے اپنے خود کے پیسوں سے خریدے تھے۔ اس اسٹال کی بدولت اس کے والد نے اپنے فوڈ اسٹال کو گارمنٹ بزنس کی طرف گامزن کردیا ۔۔ 1971 میں اس نے کرائے کی جگہ لے کر مشتاق احمد کے نام سے ریڈی میڈ گارمنٹ کا بزنس شروع کیا جس نے دو سال میں اتنی ترقی کرلی کہ لیس ایکسپائر ہونے سے پہلے ہی وہ اس سے بہتر جگہ کی تلاش میں تھا۔ 1973 میں اس نے دو نئی جگہ پہ اپنا بزنس شروع کیا جسے اس کے والد اور انکل نے "محمد مصطفی اینڈ سمس الدین” کا نام دیا ۔ اس وقت اس نے نوجوانی کی عمر میں اپنے والد کو سپورٹ کرتے ہوئے ‘فکسڈ پرائس’ پہ پروڈکٹس کو بیجنا شروع کیا جو اس وقت کی مارکیٹ کے حساب سے ایک انوکھا اور انقلابی آئڈیا تھا ۔۔ جب سنگاپور میں کرائے میں ٪70 تک اضافہ ہوا تو مصطفی نے اسٹور خریدنے کا فیصلہ کرلیا اور 20 اسٹوز خرید کر انھیں بہت وسیع ڈیپارٹمینٹل اسٹور میں کنورٹ کردیا۔ "

اس سینٹر کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات جو اسے ہریش نے بتائی تھی کہ کراچی میں موجود امتیاز سپر مارکیٹ بھی مصطفی سینٹر سے متاثر ہوکر وجود میں آیا ہے ۔۔ اس کے مالک امتیاز عباسی 1978 میں سنگاپور گئے تو بہادر آباد میں موجود اپنی کریانہ کی دکان کو مصطفی سینٹر کی طرز پہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

مصطفی سینٹر سے ہوسٹل کی طرف جاتے ہوئے رات کافی ہوگئی تھی اور وہ تھک چکا تھا ۔۔۔ صبح اسے فیکٹری جوائن کرنی تھی اسے لئے جلدی سونا بھی ضروری تھا ۔۔۔ جیسے ہی وہ کارڈ سویپ کرکے روم کے اندر داخل ہوا اندر کے منظر نے اسے چونکادیا ۔۔۔

جاری ہے۔۔
✍️ فیضان متین

سفرنامہ سنگاپور (حصہ پنجم)



ایک ہاتھ سے ٹرالی بیگ گھسیٹتے ہوئے جبکہ ایک چھوٹا بیگ پیک کندھے پہ لٹکائے ہوئے خرم لٹل انڈیا کے رہائشی علاقے میں داخل ہوا۔ آس پاس مانوس سے چہرے ، مسجدیں اور دیسی ریسٹورینٹ دیکھ کے لگتا نہیں تھا کہ یہ سنگاپور کا حصہ ہے ۔ سامنے بس سٹاپ پہ کھڑا نوجوان جو شکل سے پاکستانی لگتا تھا ۔۔۔۔ خرم اس سے جاکر ملا اور پوچھا ،
"میں پاکستان سے آیا ہوں ، کیا آپ مجھے رہائش کے حوالے سے گائیڈ کردیں گے؟”

"آج چونکہ ویک اینڈ ہے اور ٹورسٹ زیادہ آتے ہیں اس لئے ہوٹل والے ریٹ بہت بڑھادیتے ہیں ، آپ ایک کام کریں بیچلرز ہوسٹل ٹرائی کریں وہاں 20 ڈالر پر نائٹ میں سلیپنگ اسپیس مل جائے گی”

"سلیپنگ اسپیس مطلب؟”

"مطلب روم شیئرینگ ہوتا ہے ، ایک روم میں 8 سے 10 لوگ رہتے ہیں ۔۔۔ بنک بیڈ رکھے ہوتے ہیں۔۔۔ یہاں کافی کامن ہے یہ”

اسی طرح کے ایک ہاسٹل کا پتہ معلوم کرکے وہ اندر داخل ہوا ۔۔ سامنے ریسیپشن پہ ایک سنگاپورین لڑکی بیٹھی تھی۔

"I need bunk bed space for 15 days”

"Ok you .. see .. the pics of room .. and select . Ok?”
یہ کہ کر اس لڑکی نے ہوسٹل کے رومز کی ایک البم اس کے سامنے کردی۔۔ تصویری دیکھتے ہوئے خرم کی نظر ایک تصویر پہ پڑی ۔۔
"What are these girls doing in boys room”

"Boiz room .. no boiz room .. its combine . U understand .. share”
اس لڑکی کی انگلش صاف نہیں تھی ۔ لیکن جو اس نے کہا وہ خرم سمجھ چکا تھا۔ ۔۔

"Sorry i can’t share room with girls”

یہ کہ کر خرم وہاں سے باہر نکل کر کسی اور ہوسٹل کی تلاش میں نکلا ۔۔ کچھ دیر بعد ایک ہوسٹل مل گیا ۔۔ جس میں اونلی بوائز روم تھا اور نو لڑکے ایک روم میں رہ رہے تھے۔ لیکن وہ بھی اس شرط پہ ملا تھا کہ ویک اینڈ پہ رش بڑھا اور لڑکیوں نے یہ روم مانگا تو ہمیں دینا پڑے گا۔۔۔۔مجبورا اسے حامی بھرنی پڑی ۔۔

خیر روم بہت بہتر اور صاف ستھرا تھا ۔۔ ہر بیڈ سپیس کے ساتھ ایک لوکر دیا ہوا تھا اور اندر داخل ہونے کے لئے ہر ایک کو ڈیجیٹل پاس ملا ہوا تھا ۔ باتھ روم شئیرنگ میں تھے لیکن وہاں بھی صفائی کا بہترین انتظام تھا۔۔ اس کے علاوہ کپڑے استری کرنے کے لئے اسپیس ، کچن ، ایک چھوٹی لائبریری اور انٹرنیٹ کیفے بنا ہوا تھا جہاں آسانی سے وقت گزارا جاسکتا تھا ۔۔

سفر کی تھکن کی وجہ سے بیڈ پہ لیٹتے ہی اسے نیند نے آلیا ۔۔ جب وہ اٹھا تو شام ہوچکی تھی اور بھوک سے برا حال تھا ۔۔۔ اگلا مرحلہ کسی بہتر حلال فوڈ کی تلاش تھی۔۔ اور سم بھی خریدنی تھی ۔۔۔ فریش ہونے کے بعد اس نے کندھے پہ اپنا بیگ لٹکایا جس میں پاسپورٹ ، کرنسی اور دیگر اہم چیزیں تھی ۔۔ اور باہر نکل پڑا ۔۔۔

سنگاپور کا مشہور موبائل نیٹورک سنگ ٹیل (singtel) ہے ، اور یہاں کا کنٹری کوڈ 65+ ہے ۔۔ 15 ڈالر میں نئی سم مل جاتی ہے جس کے ساتھ ڈیٹا پیکج ملتا ہے جو 10 دن تک ویلڈ ہوتا ہے ۔۔۔سم کال کے مقابلے میں ڈیٹا کال زیادہ سستی ہے ۔۔ سم کارڈ ایکٹو ہوتے ہی خرم نے گھر پہ اپنی خیریت بتائی اور پھر ہریش کو کال پہ اب تک کی سادی روداد بتائی ۔ ہریش نے ویک اینڈ پہ اس سے ملنے کا وعدہ کرکے اسے ایک پاکستانی ‘عثمان ریسٹورنٹ ‘ کا پتہ بتایا ۔۔ جو کہ سرنگون روڈ پہ واقع تھا ۔۔

عثمان ریسٹورنٹ پہ دال کھاتے ہوئے اسے گھر کی یاد آئی۔۔” ویسے ہمیں اپنے ملک کی قدر کسی اور ملک میں ہی جاکر ہوتی ہے ۔۔ اب دیکھو کیا یہ دال پاکستان میں 350 روپے اور روٹی 40 روپے کی ملے گی کیا مطلب حد ہے ” کھانا کھاتے ہوئے وہ ایک پاکستانی فیملی کی گفتگو سے لطف اندوز ہورہا تھا۔

"ایک تو یہ آپ کی ہر چیز کو 74 سے ملٹیپلائی کرنے والی عادت نہیں جائے گی ۔۔ ظاہر سی بات ہے یہاں کے حساب سے ٹیکس بھی پے کرنے ہوتے ہیں تو اسی لئے کھانا مہنگا ہے” یہ یقیناً ان صاحب کی بیگم تھیں۔

جاری ہے۔۔

✍️ فیضان متین





مہنگا گفٹ

دوست کی شادی تھی اور چونکہ اس نے میری شادی پہ مجھے ایک مہنگی گھڑی جو تقریباً دس ہزار مالیت کی تھی ، گفٹ کی تھی۔۔ تو رواج کے مطابق مجھے بھی اب اتنا مہنگا گفٹ دینا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ شادی کی تقریب لاہور میں انجام پانی تھی اور ہمیشہ کی طرح گفٹ خریدنے میں لیٹ ہوگیا تھا ۔۔ فلائٹ میں صرف ایک گھنٹا باقی تھا اور میں کراچی کی سڑکوں پر گفٹ کی تلاش میں آوارہ گردی کررہا تھا۔۔ جب کچھ نہ سوجھا تو میں نے ائرپورٹ پہنچنے میں عافیت جانی۔ ابھی گاڑی اسٹارٹ ہی کی تھی کہ اچانک سڑک پہ اسے کھڑا پایا۔۔۔
” اس سے مہنگا کیا ہوسکتا ہے ۔۔۔ یہی خرید لیتا ہوں۔۔ ارے لیکن ایسا گفٹ شادی میں کون دیتا ہے؟ ۔۔۔ استاد اب اس کے سوا حل بھی نہیں ہے ۔۔ ” دماغ اور دل کی جنگ جاری تھی۔۔ خیر دماغ جیتا ۔۔ گاڑی سے اتر کر سیدھا اس کے پاس گیا ۔۔
"بھائی جلدی سے آٹھ کلو چلغوزے پیک کردو”

✍️ فیضان متین

پریسینٹیشن

” بس بہت ہوگیا ، اب میں مزید برداشت نہیں کروں گا تمھیں ۔۔ تم سمجھتی کیا ہو خود کو آخر ۔۔ میرے لیے کمی تھی کیا لڑکیوں کی ، وہ تو میری امی کو تم پسند آگئی تھی ۔۔۔ کچھ نہ کرو کم سے کم عزت سے تو بات کرو ۔۔ لگتا نہیں ہے تم اپنے شوہر سے بات کررہی ہو ۔۔ ہر بات کا بدتمیزی سے جواب دینا اور زبان درازی کرنا کیا یہی سیکھ کے آئی ہو گھر سے۔۔ میری کوئی اہمیت نہیں تمھاری نظر میں؟ بولو چپ کیوں ہو بولو ۔۔ ”

ابا جان بہت دیر سے دور کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔۔۔ پاس جاکر اپنے فرزند سے بولے ۔۔

"بیٹا خیر تو ہے یہ شیشے کے سامنے کھڑا کس سے غصے میں بات کررہا ہے”

"کچھ نہیں ابا وہ آفس میں پریزینٹیشن ہے اس کی پریکٹس کررہا تھا”

"اچھا پریکٹس ! بیٹا جو کام تو کرنا چاہ رہا ہے وہ تیرا باپ پچیس سالوں میں نہیں کرسکا۔۔ تو کس کھیت کی مولی ہے ۔۔۔ وڈا آیا پریسین ٹے شن ! ”

✍️فیضان متین

سوشل غلام

"ہم جو کہتے ہیں چپ چاپ کرتا جا” ، انھوں نے اسے

زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا۔

"لیکن میں کیوں کروں ۔۔۔ میری سوشل لائف بھی تو ہے ۔۔ "

"یہ سب پرانی باتیں ہیں ۔۔ اب بس ہمارا دور ہے”

"میں بھی چاہتا ہوں یہاں سے آزاد ہو کر باہر کی دنیا دیکھوں ۔۔۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے باتیں کیے ہوئے کتنا وقت ہوگیا ہے۔۔ نہ ہی دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی ہے۔”

"ہاہاہا۔۔ یہ سب جلد تیرے ذہن سے نکال دیں گے ۔۔۔ تو ہمارا غلام بن جائے گا” ان میں سے ایک نے کہا

” اور گھر والوں سے بات کروانے کے لئے میں ہوں نا! چیک تو کر فیملی گروپ پہ میسجز جمع ہورہے ہیں ” دوسرا بولا

"اور کرکٹ یا جو بھی گیم کھیلنا ہے اس کے لئے ایپس ہیں نہ میرے پاس ۔۔ ” تیسرے نے کہا

"لیکن میری بیوی بھی ہے بچے بھی ہیں ان کو بھی میری ضرورت ہے” اس نے پریشانی سے کہا

"ارے ان کی فکر نہیں کر۔۔ بیوی کے لئے کوکنگ اور ڈراموں کے چینل ہیں اور بچوں کو کارٹون میں لگائے رکھتا ہوں ۔۔” یہ چوتھا تھا۔

"تم لوگوں کی وجہ سے میں نہ نماز پڑھنے جاسکتا ہوں اور نہ آفس میں دل لگا کر کام کرسکتا ہوں ۔۔ بار بار مجھے ڈسٹرب کرتے ہو” اس نے چلا کر کہا۔

"زیادہ چلانے کیی ضرورت نہیں ہے ۔ تو اب ہمارا غلام ہے اور ہمارے ساتھ رہے گا ۔۔۔ تم لوگ یہیں اسے باتوں میں لگا کے رکھو ۔۔ میں دوسرے کمرے سے ہوکر آتا ہوں ۔۔ وہاں کوئی مجھے ان انسٹال کرکے اپنی لائف میں واپس جانا چاہ رہا ہے۔ "

⁦✍️⁩ فیضان متین

سفرنامہ سنگاپور (حصہ چہارم)

خرم نے آگے بڑھ کے اپنے سارے ڈوکیومینٹس چیک کروائے ۔ جب آفیسر نے اسٹے کا پوچھا تو اسے مجبوراً جھوٹ بولنا پڑا کیونکہ اس کے سوا چارہ نہیں تھا۔ اتفاق سے ایسا کچھ نہیں ہوا جس کی خرم توقع کررہا تھا اور وہ دونوں ائیرپورٹ سے باہر کی طرف جانے لگے۔

"تم اگر جھوٹ نہ بھی بولتے اور سب سچ بتا دیتے تب بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا” ہریش کہنے لگا

"یار فرسٹ ٹائم تو آیا ہوں میں نے سوچا کوئی مصیبت کھڑی نہ ہو جائے”

"چلو خیر ایئرپورٹ کے قریب ہی میٹرو ٹرین مل جائے گی وہاں سے میں تمھیں تمھارے اسٹیشن کے بارے میں گائیڈ کردوں گا ۔۔۔۔ اچھا تمھارے پاس سنگاپورین ڈالر تو ہیں نہ؟”

"ہاں وہ میں نے پاکستان سے ہی کچھ کنورٹ کروالئے تھے 74 کے ریٹ کے حساب سے”

"ہاں صحیح کیا۔۔ ابھی میٹرو اسٹیشن سے تم میٹرو کا کارڈ بنوالینا شائد 25 ڈالر کا بنے گا ۔۔ اس کے بعد جب بھی کہیں جانا ہو تم کارڈ سویپ کرکے جاسکتے ہو۔۔۔ اور یہ بس کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے”

"تو کیا یہ کارڈ 15 دن کے لئے کافی ہوگا؟”

"ہاں تمھارا اتنا زیادہ ٹریول تو ہوگا نہیں اور اگر ختم ہو بھی جائے تو ریچارج بھی ہوسکتا ہے، آؤ تمھارا کارڈ بنوادیں پھر ٹرین میں بیٹھتے ہیں۔ "

"اچھا تو اسے صرف ٹرین کے لئے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے؟”اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے خرم نے پوچھا

"نہیں اسے سنگاپور ٹورسٹ پاس (STP) کہا جاتا ہے ، جسے بس نیٹورک کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔”

اسٹیشن سے کارڈ بنوانے کے بعد وہ دونوں میٹرو ٹرین کے دروازے کے آگے کھڑے انتظار کر رہے تھے۔

"سنگاپور کا پبلک ٹرانسپورٹ نہایت شاندار اور آسان ہے، ریلوےکے لئے ماس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم یعنی MRT استعمال ہوتا ہے ، یہاں کی تقریباً ہر مشہور جگہ کے والکنگ ڈسٹینس پہ MRT Station اور بس اسٹاپ بنا ہوا ہے، صارفین موبائل میں اس کی ایپ انسٹال کرکے آسانی کے ساتھ کسی بھی علاقے میں سفر کرسکتے ہیں ۔ کچھ منٹس کے وقفے سے بس اور ٹرین مل جاتی ہیں ۔۔ اس کے علاوہ ٹیکسی سے بھی جایا جاسکتا ہے لیکن نسبتاً مہنگی ہوتی ہے۔ ” ہریش نے بتایا۔

اتنے میں ٹرین رکی ،، گیٹ کھلا اور لوگوں کا جم غفیر باہر نکلنے لگا ۔۔ باہر کھڑے ہوئے لوگوں نے ایک سائڈ پر ہوکر انھیں جگہ دی ۔۔ جب سب نکل چکے تو تمام لوگ اندر داخل ہوئے ۔۔ اندر بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو کھڑے ہوکر سفر کرنا پڑا۔

"واہ کیا زبردست ٹرین ہے اور ایک ہماری ٹرینیں ہیں، ہریش بھائی وہ دو سیٹس خالی ہیں وہاں لوگ کیوں نہیں بیٹھ رہے "

"وہ دیکھو کیا لکھا ہوا ہے reserved for patients , pregnant women and disabled persons, یہاں لوگوں میں انسانیت دکھائی دیتی ہے”

"واقعی ان سب چیزوں کا درس تو دین اسلام ہمیں دیتا ہے لیکن عمل یہ لوگ کررہے ہیں ، صرف کلمہ پڑھ لیں تو ہم سے بہتر ہیں یہ لوگ” خرم نے دل میں سوچا

"تو اب کیا پلین ہے ہریش بھائی کس اسٹیشن پہ اتروانے کا ارادہ ہے”

"یار دراصل مجھےآج آفس جوائن کرنا ہے تو میں ایسٹ جورونگ اسٹیشن پہ اترجاوں گا باقی آپ کا اسٹیشن لٹل انڈیا (little india) آگے آئے گا ۔۔ بہت معذرت میں ساتھ چل کر آپ کو مزید گائیڈ کردیتا لیکن مجبوری ہے خیر یہاں کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔۔ میرا یہاں کا نمبر سیو کرلو آپ اور سم کارڈ خرید لینا اتر کر "

"اوہ مطلب راستے میں چھوڑ کر جارہے ہو بھائی کو ۔۔ ہاہا ۔۔ ویسے یہ لٹل انڈیا کیسا نام ہے کیا یہاں سب انڈین رہتے ہیں "

"ہاں یہاں موسٹلی آنڈین پاکستانی اور بنگالی رہتے ہیں ، اس ایریا کا جبھی میں نے روکمنڈ کیا تھا کہ ماحول تھوڑا دیسی مل جائے گا باقی وہاں جاکر خود دیکھنا”

کچھ دیر بعد ہریش کا اسٹیشن آگیا اور وہ اتر گیا ۔۔۔ سامنے ونڈو سے سنگاپور کی بڑی بڑی بلڈنگیں ، صاف ستھرے چوڑے روڈ اور چپٹے ناک و نقشے والے انسان نظر آرہے تھے۔ اچانک ٹرین سلو ہوئی اور لٹل انڈیا اسٹیشن کی اناوسمینٹ سنائی دینے لگی ۔۔ 
خرم کو اب اکیلے سب مینج کرنا تھا۔۔ وہ بھی بیس کلو سامان کے ساتھ ۔۔۔

جاری ہے۔۔

✍️فیضان متین

سفرنامہ سنگاپور (حصہ سوئم)

میسج پڑھ کر خرم پریشان ہوگیا ، "اب کیا ہوگا میں نے تو رہائش کا کوئی اور بندوبست بھی نہیں کیا تھا”

اسے پریشان دیکھ کر ہریش نے ماجرا پوچھا ، جس پہ اس نے ساری بات بتائی۔

"ارے ڈونٹ وری ، سنگاپور پہنچ کے میں تمھیں ایسے ایریا میں اسٹے کروادوں گا جہاں رینٹ اتنا زیادہ نہیں ہے” ہریش نے دلاسا دیا

"لیکن یار اس لڑکی نے آخری وقت پہ دھوکہ کیوں دیا؟”

"ایکچیولی سنگاپور میں کرائم ریٹ زیرو ہے اس کی وجہ وہاں پہ قانون کا مضبوط ہونا ہے ، اسی لئے دھوکہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔۔ دراصل پہلے اس لڑکی نے انسانی ہمدردی کے تحت تمھاری بات مان لی تھی لیکن یہ ایگوڈا کی پالیسی کے خلاف تھا انھوں نے تم لوگوں کی کنورزیشن ٹریک کی ہوگی اور اس کا اکاؤنٹ بلاک کردیا ہوگا۔”

"اوہ اچھا یہ تو میں نے سوچا نہیں ، میں تو شارٹ کٹ کے چکر میں تھا ”

"ہاہا ہم پاکستانی کبھی نہیں سدھاریں گے، خیر تمھیں پتا ہے کہ یہ وائی فائی جو تم چلا رہے ہو اس کا پاسورڈ کیسے پتا چلا”

"یہ تو تم نے بتایا تھا نہ تم اکثر اس ایئرپورٹ پہ آتے ہو تو سیو ہوگا”

"ہاہا جی نہیں وہ کیفے دیکھ رہے ہو سامنے وہاں سے پانچ ڈالر کی کافی خریدنے پر پاسورڈ ملتا ہے "

"ارےے۔۔ مطلب 500 روپے کی کافی!!! ۔۔۔ ویسے پاسورڈ تو مل گیا لیکن کافی کہاں ہے بھئی”

"کافی وہ ٹیبل پہ رکھی ہوئی ٹھنڈی ہورہی ہے ۔۔ تم گھر پہ بات کررہے تھے تب میں نے آرڈر دیا تھا، آؤ پیتے ہیں”

یہ کہ کر وہ دونوں کافی پینے چلے گئے ۔ کولمبو ائیرپورٹ رقبے میں کافی چھوٹا اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایوریج تھا ۔۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہاں اسٹے چار گھنٹے کا تھا ۔۔ وہ دونوں ائیرپورٹ کے مختلف حصوں کو کھنگالتے اور آپس میں باتیں کرتے رہے۔ ایک بات جو خرم کو اچھی لگی کے ایک نان مسلم ملک ہونے کے باوجود وہاں پریئنگ ایریا بنا ہوا تھا جہاں بہت سے مسلمز نماز اور تلاوت میں مصروف تھے ۔۔ اب اسے اس نئے ماحول میں بہتر محسوس ہونے لگا تھا ۔۔۔ پاکستان سے مختلف ایک بلکل نئی جگہ۔۔ اور سفر کو انجوائے کرنے لگا تھا ۔۔ ہریش کے ساتھ اسکی فرینکنیس کچھ دیر میں کافی بڑھ گئی تھی ۔۔ وہ نہایت ملنسار اور گھل مل جانے والا انسان تھا ۔۔۔ چار گھنٹے کیسے گُزرے پتا نہیں چلا اور سنگاپور جانے کے لئے فلائٹ کی اناوسمینٹ سنائی دی۔۔۔ ۔۔ فلائٹ چانگی ایئرپورٹ کی طرف ٹیک آف کرنے لگی۔۔۔
سنگاپور اور کولمبو کا فلائٹ ڈیوریشن چار گھنٹے دس منٹ تھا ۔۔ یعنی مزید چار گھنٹے کا انتظار کرنا تھا ۔ لیکن چونکہ وہ تھکا ہوا تھا اس لیے یہ سفر اس کا سوتے ہوئے گزر گیا۔ اور جب آنکھ کلی تو چانگی ایئرپورٹ کے رن وے پہ جہاز لینڈ کررہا تھا اور کھڑکی سے سنگاپور کے حسین مناظر دکھائی دے رہے تھے۔
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _

امیگریشن کاؤنٹر کی لائن میں لگے ہریش خرم سے گویا ہوا،
"ایک سروے کے مطابق سنگاپور کا چانگی ائیرپورٹ دنیا کا نمبر ون ائیرپورٹ ہے ۔ اور یہ مسلسل پانچ سال سے اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ اس کا خوبصورت طرز تعمیر اور جدید سہولیات ہیں۔ یہاں ہیرے کی شکل کی جیول نامی ایک عمارت بھی تعمیر کی جارہی ہے جس کے اندر بے انتہا درخت اور پودے اور آبشاریں ہیں۔ اور تو اور اسی عمارت میں ایک شاندار ریسٹورینٹ بھی بنایا جارہا ہے۔ "

"اوہ پھر تو اس کی تعمیر پہ بہت لاگت آئی ہوگی؟” خرم نے حیرت سے پوچھا

"ہاں اس کی تعمیر پہ ون پوائنٹ سیون ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے”

بات کرتے ہوئے اچانک خرم کو کچھ یاد آیا ,” ہریش بھائی جو لیٹر آف انویٹیشن سنگاپور کی کمپنی کی طرف سے ای میل کے ذریعے موصول ہوا تھا اس میں لکھا تھا کہ یہ ائیرپورٹ پہ چیک کروانا ہے کیونکہ اس میں سنگاپور آنے کا مقصد لکھا ہوا ہے”

"تو کیا تم وہ گھر بھول گئے ہو”

"ارے نہیں اس کے ساتھ ایک فارم بھی تھا جس پہ سنگاپور میں اسٹے کا ایڈریس لکھنا تھا "

"اور تم نے یقیناً اس میں اس ہاؤس اونر لڑکی کا ایڈریس ڈال دیا ہوگا”

خرم نے پریشانی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔ اتنے میں امیگریشن آفیسر کی آواز آئی

"Gentleman your passport please”

جاری ہے
،⁦✍️⁩ فیضان متین

رزق حرام

"حرام کماتا ہے تبھی تو دیکھو بیوی مسلسل بیمار ہے-"

نسیم سیٹھ دکان پہ آئے ہوئے ایک جاننے والے کو اپنے رشتے دار کے متعلق بتارہے تھے۔

"ہاں نسیم بھائی صحیح کہ رہے ہو اتنی جلدی کون بھلا گھر بناتا ہے آج کل۔۔ اور تو اور ساری بیٹیاں بھی نمٹادیں ہیں”

"ہاں بھئی اب جیسا کماؤ گے ویسے ہی نکلے گا”

"بلکل ٹھیک کہا ۔۔ "

"اچھا پھر میں چلتا ہوں آفس جانا ہے”

"آفس کون سے ۔۔آپ ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئے”

"ارے صرف تنخواہ لینے جاتا ہوں مہینے میں ایک بار ۔۔ وہاں سیٹنگ کی ہوئی ہے اکاؤنٹنٹ اور مینیجر سے ۔۔ ان کو انکا حصہ پہنچادیتے ہیں ۔۔ اور ہماری حاضری لگ جاتی ہے۔۔ باقی دکان سے تو ‘رزق حلال’ اپنا چل ہی رہا ہے… اچھا میاں اب اجازت دیر ہورہی ہے”

✍️فیضان متین

پریسینٹیشن

” بس بہت ہوگیا ، اب میں مزید برداشت نہیں کروں گا تمھیں ۔۔ تم سمجھتی کیا ہو خود کو آخر ۔۔ میرے لیے کمی تھی کیا لڑکیوں کی ، وہ تو میری امی کو تم پسند آگئی تھی ۔۔۔ کچھ نہ کرو کم سے کم عزت سے تو بات کرو ۔۔ لگتا نہیں ہے تم اپنے شوہر سے بات کررہی ہو ۔۔ ہر بات کا بدتمیزی سے جواب دینا اور زبان درازی کرنا کیا یہی سیکھ کے آئی ہو گھر سے۔۔ میری کوئی اہمیت نہیں تمھاری نظر میں؟ بولو چپ کیوں ہو بولو ۔۔ ”

ابا جان بہت دیر سے دور کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔۔۔ پاس جاکر اپنے فرزند سے بولے ۔۔

"بیٹا خیر تو ہے یہ شیشے کے سامنے کھڑا کس سے غصے میں بات کررہا ہے”

"کچھ نہیں ابا وہ آفس میں پریزینٹیشن ہے اس کی پریکٹس کررہا تھا”

"اچھا پریکٹس ! بیٹا جو کام تو کرنا چاہ رہا ہے وہ تیرا باپ پچیس سالوں میں نہیں کرسکا۔۔ تو کس کھیت کی مولی ہے ۔۔۔ وڈا آیا پریسین ٹے شن ! ”

✍️فیضان متین